اپنی نظر میں بھی تو وہ اپنا نہیں رہا
چہرے پہ آدمی کے ہے چہرہ چڑھا ہوا
منظر تھا آنکھ بھی تھی تمنائے دید بھی
لیکن کسی نے دید پہ پہرہ بٹھا دیا
ایسا کریں کہ سارا سمندر اچھل پڑے
کب تک یوں سطح آب پہ دیکھیں گے بلبلہ
برسوں سے اک مکان میں رہتے ہیں ساتھ ساتھ
لیکن ہمارے بیچ زمانوں کا فاصلہ
مجمع تھا ڈگڈگی تھی مداری بھی تھا مگر
حیرت ہے پھر بھی کوئی تماشا نہیں ہوا
آنکھیں بجھی بجھی سی ہیں بازو تھکے تھکے
ایسے میں کوئی تیر چلانے کا فائدہ
وہ بے کسی کہ آنکھ کھلی تھی مری مگر
ذوق نظر پہ جبر نے پہرہ بٹھا دیا
غزل
اپنی نظر میں بھی تو وہ اپنا نہیں رہا
غضنفر