EN हिंदी
اپنی محبتوں کو سلیقہ ملے کوئی | شیح شیری
apni mohabbaton ko saliqa mile koi

غزل

اپنی محبتوں کو سلیقہ ملے کوئی

جاوید منظر

;

اپنی محبتوں کو سلیقہ ملے کوئی
اس درد لا دوا کو مسیحا ملے کوئی

ہم کو گئی رتوں کا نوشتہ ملے کوئی
ایسا بھی احتساب کا لمحہ ملے کوئی

برسوں گزر گئے ہیں اسی انتظار میں
میں بھی سنوں جو آپ سا لہجہ ملے کوئی

جھیلیں بہت ہیں راہ محبت میں سختیاں
یہ سوچ کر کہ ہم کو بھی اپنا ملے کوئی

اک عمر مجھ کو جاگتی آنکھوں نے کیا دیا
سو جاؤں اور خواب سا چہرہ ملے کوئی

پہلے سمندروں سے بھنور کو نکالیے
پھر کشتئ جنوں کو کنارا ملے کوئی