اپنی مثال آپ ہے وہ بے مثال ہے
یہ دیکھنا ہے کون مرا ہم خیال ہے
ہر قہقہے میں درد کے ساگر ہیں تہہ نشیں
دیوانہ دیکھنے میں تو آسودہ حال ہے
کب سبزۂ نشاط ہے آسودۂ نظر
ہر سمت سرخ سرخ صلیبوں کا جال ہے
پتھر بدست ملتا ہے ہر شخص شہر میں
آئینہ بن گئے ہیں تو بچنا محال ہے
بربادیٔ حیات پہ محورؔ ہوں خوش بہت
بربادیوں کا میری انہیں بھی خیال ہے
غزل
اپنی مثال آپ ہے وہ بے مثال ہے
محور نوری