اپنی مرضی سے کہاں اپنے سفر کے ہم ہیں
رخ ہواؤں کا جدھر کا ہے ادھر کے ہم ہیں
پہلے ہر چیز تھی اپنی مگر اب لگتا ہے
اپنے ہی گھر میں کسی دوسرے گھر کے ہم ہیں
وقت کے ساتھ ہے مٹی کا سفر صدیوں سے
کس کو معلوم کہاں کے ہیں کدھر کے ہم ہیں
چلتے رہتے ہیں کہ چلنا ہے مسافر کا نصیب
سوچتے رہتے ہیں کس راہ گزر کے ہم ہیں
ہم وہاں ہیں جہاں کچھ بھی نہیں رستہ نہ دیار
اپنے ہی کھوئے ہوئے شام و سحر کے ہم ہیں
گنتیوں میں ہی گنے جاتے ہیں ہر دور میں ہم
ہر قلم کار کی بے نام خبر کے ہم ہیں
غزل
اپنی مرضی سے کہاں اپنے سفر کے ہم ہیں
ندا فاضلی