اپنی مرضی ہی کرو گے تم بھی
کچھ کسی کی نہ سنو گے تم بھی
وقت سے بچ نہ سکو گے تم بھی
جو کرو گے وہ بھرو گے تم بھی
ایک آواز سنی ہے ہم نے
ایک آواز سنو گے تم بھی
آج آندھی ہو تو مٹی کی طرح
ایک دن بیٹھ رہو گے تم بھی
آج سرکار بنے بیٹھے ہو
کل کو فریاد کرو گے تم بھی
یہی ہوتا ہے یہی ہونا ہے
ایک دن ہاتھ ملو گے تم بھی
جب نکل جائے گا روحیؔ مطلب
کتنے الزام دھرو گے تم بھی
غزل
اپنی مرضی ہی کرو گے تم بھی
روحی کنجاہی