اپنی مجبوری کو ہم دیوار و در کہنے لگے
قید کا ساماں کیا اور اس کو گھر کہنے لگے
درج ہے تاریخ وصل و ہجر اک اک شاخ پر
بات جو ہم تم نہ کہہ پائے شجر کہنے لگے
خوف تنہائی دکھاتا تھا عجب شکلیں سو ہم
اپنے سائے ہی کو اپنا ہم سفر کہنے لگے
بستیوں کو بانٹنے والا جو خط کھینچا گیا
خط کشیدہ لوگ اس کو رہگزر کہنے لگے
اول اول دوستوں پر ناز تھا کیا کیا ہمیں
آخر آخر دشمنوں کو معتبر کہنے لگے
دیکھتے ہیں گھر کے روزن سے جو نیلا آسماں
وہ بھی اپنے آپ کو اہل نظر کہنے لگے
غزل
اپنی مجبوری کو ہم دیوار و در کہنے لگے
شبنم رومانی