اپنی خطا کو اس نے مرے نام لکھ دیا
اس پر کمال یہ کہ سر عام لکھ دیا
اندھوں کے درمیان رہوں آئنہ مثال
میرے لئے خدا نے عجب کام لکھ دیا
ناراض ہے وہ مجھ سے بس اتنی سی بات پر
تیرہ شبی کو دن نہ لکھا شام لکھ دیا
کچھ بن پڑا نہ حسرت تعمیر سے تو پھر
اجڑے ہوئے کھنڈر کو در و بام لکھ دیا
جب تیرگی بڑھے گی تو چمکے گا اور بھی
دل کے لہو سے ہم نے ترا نام لکھ دیا
کہتے ہیں کس کو صبر و تحمل یہ ہم سے پوچھ
تکلیف جو ملی اسے آرام لکھ دیا
یہ بھی ہوا کہ جس نے اجاڑے تھے گھر کے گھر
منصف نے اس کو لائق انعام لکھ دیا
چاہی تھی میں نے جس کی بھلائی تمام عمر
اس نے مری دعاؤں کو دشنام لکھ دیا
کوئی تو بات ہوگی کہ اہل نگاہ نے
جتنے ثمر تھے پختہ انہیں خام لکھ دیا
اب واسطہ پڑا ہے تو ماہرؔ کھلا یہ راز
پتھر بدن کو ہم نے گل اندام لکھ دیا

غزل
اپنی خطا کو اس نے مرے نام لکھ دیا
ماہر عبدالحی