اپنی خبر نہیں ہے بجز اس قدر مجھے
اک شخص تھا کہ مل نہ سکا عمر بھر مجھے
شعلوں کی گفتگو میں صبا کے خرام میں
آواز دے رہا ہے کوئی ہم سفر مجھے
شاید انہی کا عجز مرے کام آ گیا
جن دوستوں نے چھوڑ دیا وقت پر مجھے
شب کو تو ایک قافلۂ گل تھا ساتھ ساتھ
یارب یہ کس مقام پہ آئی سحر مجھے
ہنستے رہے فلک پہ ستارے زمیں پہ پھول
اچھا ہوا کہ عمر ملی مختصر مجھے
مدت کے بعد اس نے سر انجمن ضمیرؔ
دیکھا نگاہ عام سے اور خاص کر مجھے
غزل
اپنی خبر نہیں ہے بجز اس قدر مجھے
سید ضمیر جعفری