اپنی کیفیتیں ہر آن بدلتی ہوئی شام
منجمد ہوتی ہوئی اور پگھلتی ہوئی شام
ڈگمگاتی ہوئی ہر گام سنبھلتی ہوئی شام
خواب گاہوں سے ادھر خواب میں چلتی ہوئی شام
گوندھ کر موتیے کے ہار گھنی زلفوں میں
عارض و لب پہ شفق سرخیاں ملتی ہوئی شام
اک جھلک پوشش بے ضبط سے عریانی کی
دے گئی دن کے نشیبوں سے پھسلتی ہوئی شام
ایک سناٹا رگ و پے میں سدا گونجتا ہے
بجھ گئی جیسے لہو میں کوئی جلتی ہوئی شام
وقت بپتسمہ کرے آب ستارہ سے اسے
دست دنیا کی درازی سے نکلتی ہوئی شام
غزل
اپنی کیفیتیں ہر آن بدلتی ہوئی شام
آفتاب اقبال شمیم