EN हिंदी
اپنی ہی آواز کے قد کے برابر ہو گیا | شیح شیری
apni hi aawaz ke qad ke barabar ho gaya

غزل

اپنی ہی آواز کے قد کے برابر ہو گیا

احمد تنویر

;

اپنی ہی آواز کے قد کے برابر ہو گیا
مرتبہ انساں کا پھر بالا و برتر ہو گیا

دل میں در آیا تو مثل گل معطر ہو گیا
میرے شعروں کا سراپا جس کا پیکر ہو گیا

ڈھلتے سورج نے دیا ہے کتنی یادوں کو فروغ
چاند یوں ابھرا کہ ہر ذرہ اجاگر ہو گیا

اب تو اپنے جسم کے سائے سے بھی لگتا ہے ڈر
گھر سے باہر بھی نکلنا اب تو دوبھر ہو گیا

گونجتا ماحول وحشی واہمے جنگل سفر
اف یہ کالی رات جو میرا مقدر ہو گیا

ہائے وہ اک اشک جس کی کوئی منزل ہی نہیں
ہائے وہ اک بے زباں جو گھر سے بے گھر ہو گیا

آپ سے ہم کیا کہیں شہر نگاراں کا مزاج
جو بھی اس ماحول میں آیا وہ پتھر ہو گیا

کیا ہوئیں فکر و تصور کی ترے رعنائیاں
حادثہ ایسا بھی کیا تنویرؔ تم پر ہو گیا