اپنی ہستی کو مٹا دوں ترے جیسا ہو جاؤں
اس طرح چاہوں تجھے میں ترا حصہ ہو جاؤں
پائلیں باندھ کے بارش کی کروں رقص جنوں
تو گھٹا بن کے برس اور میں صحرا ہو جاؤں
دور تک ٹھہرا ہوا جھیل کا پانی ہوں میں
تیری پرچھائیں جو پڑ جائے تو دریا ہو جاؤں
شہر در شہر مرے عشق کی نوبت باجے
میں جہاں جاؤں ترے نام سے رسوا ہو جاؤں
آدمی بن کے بہت میں نے تجھے سجدے کیے
تو خدا بن کے مجھے مل میں فرشتہ ہو جاؤں
اس طرح مل کہ بچھڑنے کا تصور نہ رہے
اس طرح مانگ مجھے تو کہ میں تیرا ہو جاؤں
اتنا بیمار کہ سانسوں سے دھواں اٹھتا ہے
آ تجھے دیکھ لوں اور دیکھ کے اچھا ہو جاؤں
غزل
اپنی ہستی کو مٹا دوں ترے جیسا ہو جاؤں
شکیل اعظمی