اپنی ہستی کا اگر حسن نمایاں ہو جائے
آدمی کثرت انوار سے حیراں ہو جائے
تم جو چاہو تو مرے درد کا درماں ہو جائے
ورنہ مشکل ہے کہ مشکل مری آساں ہو جائے
او نمک پاش تجھے اپنی ملاحت کی قسم
بات تو جب ہے کہ ہر زخم نمک داں ہو جائے
دینے والے تجھے دینا ہے تو اتنا دے دے
کہ مجھے شکوۂ کوتاہئ داماں ہو جائے
اس سیہ بخت کی راتیں بھی کوئی راتیں ہیں
خواب راحت بھی جسے خواب پریشاں ہو جائے
سینۂ شبلی و منصور تو پھونکا تو نے
اس طرف بھی کرم اے جنبش داماں ہو جائے
آخری سانس بنے زمزمۂ ہو اپنا
ساز مضراب فنا تار رگ جاں ہو جائے
تو جو اسرار حقیقت کہیں ظاہر کر دے
ابھی بیدمؔ رسن و دار کا ساماں ہو جائے
غزل
اپنی ہستی کا اگر حسن نمایاں ہو جائے
بیدم شاہ وارثی