اپنی ہر بات زمانے سے چھپانی پڑی تھی
پھر بھی جس آنکھ میں دیکھا تو کہانی پڑی تھی
میں نے کچھ رنگ چرائے تھے کسی تتلی کے
اور پھر عمر حفاظت میں بتانی پڑی تھی
کل کسی عشق کے بیمار پہ دم کرنا تھا
پیر کامل کو غزل میری سنانی پڑی تھی
کوچۂ عشق سے ناکام پلٹنے والے
تو نے دیکھا تھا وہاں میری جوانی پڑی تھی
دل نہ سہہ پایا کسی اور سے قربت اس کی
مجھ کو دیوار سے تصویر ہٹانی پڑی تھی
میں بہت جلد بڑھاپے میں چلا آیا تھا
بن ترے عمر کی رفتار بڑھانی پڑی تھی
اس کی حسرت کا بدن برف نہ ہو جائے کہیں
اپنے سینے میں مجھے آگ لگانی پڑی تھی
تیرے ممتازؔ کو غم موت کا بس اس لیے ہے
اپنے بالوں میں تجھے خاک روانی پڑی تھی
غزل
اپنی ہر بات زمانے سے چھپانی پڑی تھی
ممتاز گورمانی