EN हिंदी
اپنی غزل کو خون کا سیلاب لے گیا | شیح شیری
apni ghazal ko KHun ka sailab le gaya

غزل

اپنی غزل کو خون کا سیلاب لے گیا

فاروق نازکی

;

اپنی غزل کو خون کا سیلاب لے گیا
آنکھیں رہیں کھلی کی کھلی خواب لے گیا

شب زندہ دار لوگ اندھیروں سے ڈر گئے
صبح ازل سے کون تب و تاب لے گیا

عریاں ہے میری لاش حقیقت کی دھوپ میں
وہ اپنے ساتھ یادوں کا برفاب لے گیا

آیا مرے قریب گل سیم تن کی طرح
سارا سکون صورت سیماب لے گیا

مجھ کو سپرد تشنگیٔ روح کر گیا
وہ اپنے ساتھ بزم مے ناب لے گیا