اپنی غزل کو خون کا سیلاب لے گیا
آنکھیں رہیں کھلی کی کھلی خواب لے گیا
شب زندہ دار لوگ اندھیروں سے ڈر گئے
صبح ازل سے کون تب و تاب لے گیا
عریاں ہے میری لاش حقیقت کی دھوپ میں
وہ اپنے ساتھ یادوں کا برفاب لے گیا
آیا مرے قریب گل سیم تن کی طرح
سارا سکون صورت سیماب لے گیا
مجھ کو سپرد تشنگیٔ روح کر گیا
وہ اپنے ساتھ بزم مے ناب لے گیا
غزل
اپنی غزل کو خون کا سیلاب لے گیا
فاروق نازکی