EN हिंदी
اپنی بے چہرگی میں پتھر تھا | شیح شیری
apni be-chehragi mein patthar tha

غزل

اپنی بے چہرگی میں پتھر تھا

رسا چغتائی

;

اپنی بے چہرگی میں پتھر تھا
آئینہ بخت میں سمندر تھا

سر گزشت ہوا میں لکھا ہے
آسماں ریت کا سمندر تھا

کس کی تصنیف ہے کتاب دل
کون تالیف پر مقرر تھا

کچھ تو واضح نہ تھا تری صورت
اور کچھ آئینہ مکدر تھا

وہ نظر خضر راہ مقتل تھی
اس سے آگے مرا مقدر تھا

رات آغوش دیدۂ تر میں
عکس آغوش دیدۂ تر تھا

یہ قدم اس گلی کے لگتے ہیں
جس گلی میں کبھی مرا گھر تھا