اپنی بے چہرگی میں پتھر تھا
آئینہ بخت میں سمندر تھا
سر گزشت ہوا میں لکھا ہے
آسماں ریت کا سمندر تھا
کس کی تصنیف ہے کتاب دل
کون تالیف پر مقرر تھا
کچھ تو واضح نہ تھا تری صورت
اور کچھ آئینہ مکدر تھا
وہ نظر خضر راہ مقتل تھی
اس سے آگے مرا مقدر تھا
رات آغوش دیدۂ تر میں
عکس آغوش دیدۂ تر تھا
یہ قدم اس گلی کے لگتے ہیں
جس گلی میں کبھی مرا گھر تھا
غزل
اپنی بے چہرگی میں پتھر تھا
رسا چغتائی