اپنی بہار پہ ہنسنے والو کتنے چمن خاشاک ہوئے
اپنے رفو کو گننے والو کتنے گریباں چاک ہوئے
دیوانوں کو کون بتائے آج کی رسم اور آج کی بات
اس نے انہیں کی سمت نظر کی عشق میں جو بے باک ہوئے
شعبدۂ یک طرز کرم ہے کیسی سزا اور کیسی جزا
موج تبسم جب لہرائی تر دامن بھی پاک ہوئے
رخ دیکھا جس سمت ہوا کا اس جانب منہ کر کے چلے
دشت جنوں کے دیوانے بھی مثل صبا چالاک ہوئے
خاک نشیمن جب اڑتی ہے دل سے دھواں سا اٹھتا ہے
حادثے اس گلزار میں ورنہ اور بہت غم ناک ہوئے
دیکھتے دیکھتے دنیا بدلی گلشن کیا ویرانہ کیا
پربت پربت نقش تھے جن کے مٹتے مٹتے خاک ہوئے
جان چمن جو گل تھے اخترؔ وہ تو ہوئے معتوب و ذلیل
زیب گلستاں رونق گلشن کل کے خس و خاشاک ہوئے
غزل
اپنی بہار پہ ہنسنے والو کتنے چمن خاشاک ہوئے
اختر انصاری