اپنی آنکھوں کے حصاروں سے نکل کر دیکھنا
تو کسی دن اپنے نہ ہونے کا منظر دیکھنا
اک عدم معلوم مدت سے میں تیری زد میں ہوں
خود کو لمحہ بھر مرا قیدی بنا کر دیکھنا
شام گہرے پانیوں میں ڈوب کر ایک بار پھر
شہر کے موجود منظر کو پلٹ کر دیکھنا
دیکھنا پچھلے پہر خوابوں کی اک اندھی قطار
آسماں پر ٹوٹتے تاروں کا منظر دیکھنا
میرا اپنے آپ سے باہر بکھر جانا تمام
اور خزاں دیدہ پرندوں کا مرا گھر دیکھنا
رنگ اپنے آپ ہی اب سب کے سب زائل ہوئے
ہے عبث دیوار پر یہ نقش و پیکر دیکھنا
میں کہ خود مضطر فصیل جسم کے اس پار ہوں
کیا بھنور کا خوف اب کیسا سمندر دیکھنا

غزل
اپنی آنکھوں کے حصاروں سے نکل کر دیکھنا
فاروق مضطر