EN हिंदी
اپنی آگ میں بھنتی جائے بنتی جائے کفن اپنا | شیح شیری
apni aag mein bhunti jae bunti jae kafan apna

غزل

اپنی آگ میں بھنتی جائے بنتی جائے کفن اپنا

محب عارفی

;

اپنی آگ میں بھنتی جائے بنتی جائے کفن اپنا
گویا اسی لیے چھوڑا ہے چنگاری نے وطن اپنا

جھونکے کچھ بے جان ہوا کے آتے ہیں اپنے آپ چلے
جھوم اٹھتے ہیں چمن کے پنکھے اس کو جان کے فن اپنا

خود رو سبزے چھیڑ رہے ہیں جنگل کے قانون کے راگ
کب تک باغ میں پڑھوائیں گے خطبہ سرو و سمن اپنا

دریا دل ہے ساحل میرا مگر یہاں ہر سیل بلا
سائل ہے کہ بڑھا آتا ہے پھیلائے دامن اپنا

مل تو جائے اپنے بھنور کو دریا کے چکر سے نجات
لیکن آہ اگر رہ جاؤں ہو کر میں ہمہ تن اپنا

شمع کی لو کیا شوق بقا میں شمع کو چاٹے جاتی ہے
خود کو ترستی رہ جاتی ہے روح مٹا کے بدن اپنا

کوئی محبؔ آزردہ کیوں ہو میری تلخ کلامی سے
اپنی ہی جانب رہتا ہے اکثر روئے سخن اپنا