اپنے ذوق دید کو اب کارگر پاتا ہوں میں
ان کا جلوہ ہر طرف پیش نظر پاتا ہوں میں
وہ بھی دن تھے جب مرے دل کو تھی تیری جستجو
یہ بھی دن ہے دل کو اب تیرا ہی گھر پاتا ہوں میں
ہر قدم ہے جستجو کی راہ میں دشوار تر
ہر قدم پر گم رہی کو راہ بر پاتا ہوں میں
آ گیا ہے عشق میں کیسا یہ حیرت کا مقام
جس طرف جاتا ہوں ان کو جلوہ گر پاتا ہوں میں
اب کہاں میری نظر میں دہر کی رنگینیاں
اب تو اپنے آپ ہی کو خود نگر پاتا ہوں میں
موت سے ہوتی ہے شیداؔ زندگی کی پرورش
ہر نفس میں یہ حقیقت مشتہر پاتا ہوں میں
غزل
اپنے ذوق دید کو اب کارگر پاتا ہوں میں
شیدا انبالوی