EN हिंदी
اپنے ظرف اپنی طلب اپنی نظر کی بات ہے | شیح شیری
apne zarf apni talab apni nazar ki baat hai

غزل

اپنے ظرف اپنی طلب اپنی نظر کی بات ہے

سید ضمیر جعفری

;

اپنے ظرف اپنی طلب اپنی نظر کی بات ہے
رات ہے لیکن مرے لب پر سحر کی بات ہے

آشیاں کے ساتھ پوری زندگی بدلی گئی
کم نظر سمجھے کہ مشت بال و پر کی بات ہے

تا ابد کتنے اندھیرے تھے کہ روشن ہو گئے
شمع کا جلنا بظاہر رات بھر کی بات ہے

زندگی صدیوں کا حاصل زندگی صدیوں کا روپ
زندگی جو چشمک برق و شرر کی بات ہے

منزل اک رہرو کا تھک جانا ہے ورنہ زندگی
اک مسلسل رہ گزر پیہم سفر کی بات ہے