اپنے ظرف اپنی طلب اپنی نظر کی بات ہے
رات ہے لیکن مرے لب پر سحر کی بات ہے
آشیاں کے ساتھ پوری زندگی بدلی گئی
کم نظر سمجھے کہ مشت بال و پر کی بات ہے
تا ابد کتنے اندھیرے تھے کہ روشن ہو گئے
شمع کا جلنا بظاہر رات بھر کی بات ہے
زندگی صدیوں کا حاصل زندگی صدیوں کا روپ
زندگی جو چشمک برق و شرر کی بات ہے
منزل اک رہرو کا تھک جانا ہے ورنہ زندگی
اک مسلسل رہ گزر پیہم سفر کی بات ہے
غزل
اپنے ظرف اپنی طلب اپنی نظر کی بات ہے
سید ضمیر جعفری