اپنے سینے کو مرے زخموں سے بھرنے والی
تو کہاں کھو گئی خوشبو سی بکھرنے والی
میں تو ہو جاؤں گا روپوش تہ خاک مگر
ایک خواہش ہے مرے دل میں نہ مرنے والی
آنکھیں ویران ہیں ہونٹوں پہ سلگتے ہیں سراب
تہہ نشیں ہو گئی ہر موج ابھرنے والی
اک سکوں پا گیا جا کر تہہ دریا پتھر
اب بلا کوئی نہیں سر سے گزرنے والی
نیند آتی ہے تو اک خوف سا لگتا ہے مجھے
جیسے اک لاش پہ ہو چیل اترنے والی
ڈھل گئے سنگ میں اس طرح مجیبیؔ جذبات
اب شکن بھی نہیں ماتھے پہ ابھرنے والی

غزل
اپنے سینے کو مرے زخموں سے بھرنے والی
صدیق مجیبی