EN हिंदी
اپنے سے گریزاں کبھی اغیار سے برہم | شیح شیری
apne se gurezan kabhi aghyar se barham

غزل

اپنے سے گریزاں کبھی اغیار سے برہم

اقبال حیدری

;

اپنے سے گریزاں کبھی اغیار سے برہم
مانند بگولوں کے ہیں اب گرم سفر ہم

پھرتے ہیں ترے شہر میں بے یار و مددگار
گرد رہ منزل کی طرح خاک بہ سر ہم

وہ رات کسی طور جو کاٹے نہیں کٹتی
وہ رات بھی کرتے ہیں کسی طور بسر ہم

اللہ ری واماندگئ‌ قافلۂ شام
بیٹھے رہے تا صبح سر‌ راہ گزر ہم

کاندھوں پہ اٹھائے ہوئے اک تہمت یاراں
جاتے ہیں سوئے دار جھکائے ہوئے سر ہم

پھولوں کی کبھی بات ستاروں کا کبھی ذکر
کرتے ہیں تجھے یاد بہ انداز دگر ہم

پھر دل نے پکارا ہے اسی شعلہ نفس کو
جو روح کی تسکین ہے اور زخم کا مرہم

یہ جبر مشیت تھا کہ دیکھا کیے برسوں
انداز شب تار میں آثار سحر ہم

حسن لب و گیسو کو دیا ہم نے نیا نام
عالم سے جدا رکھتے ہیں انداز نظر ہم

یہ کاوش افکار متاع دل و جاں ہے
رکھتے ہیں اگر کچھ تو یہی نقد ہنر ہم