EN हिंदी
اپنے قدموں ہی کی آواز سے چونکا ہوتا | شیح شیری
apne qadmon hi ki aawaz se chaunka hota

غزل

اپنے قدموں ہی کی آواز سے چونکا ہوتا

اختر ہوشیارپوری

;

اپنے قدموں ہی کی آواز سے چونکا ہوتا
یوں مرے پاس سے ہو کر کوئی گزرا ہوتا

چاندنی سے بھی سلگ اٹھتا ہے ویرانۂ جاں
یہ اگر جانتے سورج ہی کو چاہا ہوتا

زندگی خواب پریشاں ہے بہار ایک خیال
ان کو ملنے سے بہت پہلے یہ سوچا ہوتا

دوپہر گزری مگر دھوپ کا عالم ہے وہی
کوئی سایہ کسی دیوار سے اترا ہوتا

ریت اڑ اڑ کے ہواؤں میں چلی آتی ہے
شہر ارماں سر صحرا نہ بسایا ہوتا

آرزو عمر گریزاں تو نہیں تم تو نہیں
یہ سرکتا ہوا لمحہ کہیں ٹھہرا ہوتا

پیچھے پیچھے کوئی سایہ سا چلا آتا تھا
ہائے وہ کون تھا مڑ کر اسے دیکھا ہوتا

تجھ سے یک گو نہ تعلق مجھے اک عمر سے تھا
زندگی تو نے ہی بڑھ کر مجھے روکا ہوتا

جانے کیا سوچ کے لوگوں نے بجھائے ہیں چراغ
رات کٹتی تو سحر ہوتی اجالا ہوتا

اپنے دامن کو جلا کر میں چراغاں کرتا
اگر اس راکھ میں اخترؔ کوئی شعلہ ہوتا