اپنے قدم کی چاپ سے یوں ڈر رہے ہیں ہم
مقتل کی سمت جیسے سفر کر رہے ہیں ہم
کیا چاند اور تاروں کو ہم جانتے نہیں
اے آسمان والو زمیں پر رہے ہیں ہم
مشکل تھا سطح آب سے ہم کو کھنگالنا
باہر نہیں تھے جتنا کہ اندر رہے ہیں ہم
کل اور کوئی وقت کی آنکھوں میں ہو تو کیا
اب تک تو ہر نگاہ کا محور رہے ہیں ہم
دیر و حرم سے اور بھی آگے نکل گئے
ہاں عقل کی حدود سے باہر رہے ہیں ہم
اے ہم سفر نہ پوچھ مسافت نصیب سے
تو جانتا ہے کتنے دنوں گھر رہے ہیں ہم
باہر نہ آئے ہم بھی انا کے حصار سے
اس جنگ میں تمہارے برابر رہے ہیں ہم
جھرنوں کی کیا بساط کریں گفتگو فہیمؔ
دریا گرے جہاں وہ سمندر رہے ہیں ہم

غزل
اپنے قدم کی چاپ سے یوں ڈر رہے ہیں ہم
فہیم جوگاپوری