اپنے پہلو سے وہ غیروں کو اٹھا ہی نہ سکے
ان کو ہم قصۂ غم اپنا سنا ہی نہ سکے
ذہن میرا وہ قیامت کہ دو عالم پہ محیط
آپ ایسے کہ مرے ذہن میں آ ہی نہ سکے
دیکھ لیتے جو انہیں تو مجھے رکھتے معذور
شیخ صاحب مگر اس بزم میں جا ہی نہ سکے
عقل مہنگی ہے بہت عشق خلاف تہذیب
دل کو اس عہد میں ہم کام میں لا ہی نہ سکے
ہم تو خود چاہتے تھے چین سے بیٹھیں کوئی دم
آپ کی یاد مگر دل سے بھلا ہی نہ سکے
عشق کامل ہے اسی کا کہ پتنگوں کی طرح
تاب نظارۂ معشوق کی لا ہی نہ سکے
دام ہستی کی بھی ترکیب عجب رکھی ہے
جو پھنسے اس میں وہ پھر جان بچا ہی نہ سکے
مظہر جلوۂ جاناں ہے ہر اک شے اکبرؔ
بے ادب آنکھ کسی سمت اٹھا ہی نہ سکے
ایسی منطق سے تو دیوانگی بہتر اکبرؔ
کہ جو خالق کی طرف دل کو جھکا ہی نہ سکے
غزل
اپنے پہلو سے وہ غیروں کو اٹھا ہی نہ سکے
اکبر الہ آبادی