EN हिंदी
اپنے لہو میں زہر بھی خود گھولتا ہوں میں | شیح شیری
apne lahu mein zahr bhi KHud gholta hun main

غزل

اپنے لہو میں زہر بھی خود گھولتا ہوں میں

عمران الحق چوہان

;

اپنے لہو میں زہر بھی خود گھولتا ہوں میں
سوز دروں کسی پہ نہیں کھولتا ہوں میں

افلاک میری درد تہ جام میں ہیں گم
تسبیح مہر و انجم و مہ رولتا ہوں میں

کچھ نہ سمجھ کے اٹھ چلے سب میرے غم گسار
جانے وہی کہ جس کی زباں بولتا ہوں میں

کیا جانے شاخ وقت سے کس وقت گر پڑوں
مانند برگ زرد ابھی ڈولتا ہوں میں

بازار دل میں درد کا گاہک نہیں کوئی
میزان آرزو میں زیاں تولتا ہوں میں

عمرانؔ بوئے گل سے ہیں ناخن مہک اٹھے
یہ کس حسیں کے بند قبا کھولتا ہوں میں