EN हिंदी
اپنے لفظوں میں کہ ہر چند عیاں ہوں میں بھی | شیح شیری
apne lafzon mein ki har chand ayan hun main bhi

غزل

اپنے لفظوں میں کہ ہر چند عیاں ہوں میں بھی

لطف الرحمن

;

اپنے لفظوں میں کہ ہر چند عیاں ہوں میں بھی
بن کے زخموں کی کسک خود میں نہاں ہوں میں بھی

تیرے آغاز سے انجام ہے روشن میرا
برگ آوارہ کوئی خاک رواں ہوں میں بھی

معتبر اب تو بنا اے نگۂ ناز مجھے
اس بھرے شہر میں بے نام و نشاں ہوں میں بھی

وضع داری کا خریدار کہیں سے لاؤ
اپنی تہذیب کی اٹھتی سی دکاں ہوں میں بھی

تیرے خوابوں سے ہے آباد خرابہ میرا
تیری یادوں میں کراں تا بہ کراں ہوں میں بھی