اپنے لفظوں میں کہ ہر چند عیاں ہوں میں بھی
بن کے زخموں کی کسک خود میں نہاں ہوں میں بھی
تیرے آغاز سے انجام ہے روشن میرا
برگ آوارہ کوئی خاک رواں ہوں میں بھی
معتبر اب تو بنا اے نگۂ ناز مجھے
اس بھرے شہر میں بے نام و نشاں ہوں میں بھی
وضع داری کا خریدار کہیں سے لاؤ
اپنی تہذیب کی اٹھتی سی دکاں ہوں میں بھی
تیرے خوابوں سے ہے آباد خرابہ میرا
تیری یادوں میں کراں تا بہ کراں ہوں میں بھی
غزل
اپنے لفظوں میں کہ ہر چند عیاں ہوں میں بھی
لطف الرحمن