اپنے خلا میں لا کہ یہ تم کو دکھا رہا ہوں میں
وہ جو خلا نورد ہیں ان کے لیے خلا ہوں میں
عشق ہوا نہیں مجھے عشق کو ہو گیا ہوں میں
اتنا نہیں بچا ہوا جتنا پڑا ہوا ہوں میں
بن تو گیا ہوں کوزہ گر گھوم کے تیرے چاک پر
جیسا بنا رہا تھا تو ویسا نہیں بنا ہوں میں
مٹی یہاں کی ٹھیک ہے مٹی سے کچھ گلا نہیں
آنکھیں ملا ملا کے بس پانی بدل رہا ہوں میں
بھیس دیے کا دھار کر تیری دعا سنوار کر
بیچ میں طاقچہ ہے اور دونوں طرف کھڑا ہوں میں
روح ملی ہے یا نہیں اتنا میں جانتا نہیں
تیرے سے ایک جسم کو پہلے بھی مل چکا ہوں میں
بارہ بجے کے بعد اک دن کو نکالتے ہوئے
دیکھا تو جا چکا ہوں پر پکڑا نہیں گیا ہوں میں
غزل
اپنے خلا میں لا کہ یہ تم کو دکھا رہا ہوں میں
فیضان ہاشمی