اپنے جینے کو کیا پوچھو صبح بھی گویا رات رہی
تم بھی روٹھے جگ بھی روٹھا یہ بھی وقت کی بات رہی
پیار کے کھیل میں دل کے مالک ہم تو سب کچھ کھو بیٹھے
اکثر تم سے شرط لگی ہے اکثر اپنی مات رہی
لاکھ دئے دنیا نے چرکے لاکھ لگے دل پر پہرے
حسن نے لاکھوں چالیں بدلیں لیکن عشق کی گھات رہی
تم کیا سمجھے تم سے چھٹ کر ہاتھ بھلا ہم کیوں ملتے
چشم و دل کے شغل کو اکثر اشکوں کی برسات رہی
تم سے دو دو بات کی خاطر ہم آگے بڑھ آئے تھے
پیچھے پیچھے ساتھ ہمارے تلخئ لمحات رہی
ٹھنڈی ٹھنڈی آہ کی خوشبو نرم و گرم اشکوں کے ہار
سچ پوچھو تو اپنی ساری زیست کی یہ سوغات رہی
کیسے صبح کو شام کروں گا کیسے کٹیں گے عمر کے دن
سوچ رہا ہوں اب جو یہی بے چارگئ حالات رہی
غزل
اپنے جینے کو کیا پوچھو صبح بھی گویا رات رہی
سجاد باقر رضوی