EN हिंदी
اپنے جوہر سے سوا بھی کوئی قیمت مانگے | شیح شیری
apne jauhar se siwa bhi koi qimat mange

غزل

اپنے جوہر سے سوا بھی کوئی قیمت مانگے

اسحاق اطہر صدیقی

;

اپنے جوہر سے سوا بھی کوئی قیمت مانگے
دل وہ آئینہ نہیں ہے کہ جو صورت مانگے

میں نے دریاؤں میں بھی دشت کا منظر دیکھا
جب کہ پیاسا کوئی پانی کی اجازت مانگے

اس کی رفتار کی تصویر بنائی نہ گئی
کس قیامت کو یہ ہنگام قیامت مانگے

ناز کی قامت زیبا کی بیاں کیا کیجے
پیرہن بھی جہاں اسلوب نزاکت مانگے

جتنا ہوتا ہے کم آثار خوشی کا لمحہ
دل مرا درد سے اتنی بھی نہ مہلت مانگے

ہر طرف شور ہے آوازوں کا تصویروں کا
کون گھبرا کے نہ اب گوشۂ عزلت مانگے

خواب اترے ہیں مرے ذہن پہ جیسے الہام
کون ان خوابوں سے تعبیر کی قیمت مانگے

کون مصلوب ہوا کس پہ لگا ہے الزام
کشمکش ایسی ہے انصاف عدالت مانگے