EN हिंदी
اپنے ہونے کے جو آثار بنانے ہیں مجھے | شیح شیری
apne hone ke jo aasar banane hain mujhe

غزل

اپنے ہونے کے جو آثار بنانے ہیں مجھے

فاضل جمیلی

;

اپنے ہونے کے جو آثار بنانے ہیں مجھے
جانے کتنے در و دیوار بنانے ہیں مجھے

خود کو رکھنا بھی نہیں جنس گراں کی صورت
بکنے والوں کے بھی معیار بنانے ہیں مجھے

تیرے قدموں میں بچھانے ہیں زمینی رستے
اور اپنے لیے کہسار بنانے ہیں مجھے

اپنے جیسا کوئی دشمن بھی ضروری ہے بہت
تیرے جیسے بھی کئی یار بنانے ہیں مجھے

سلسلہ ٹوٹ نہ جائے مری وحشت کا کہیں
نقش قدموں کے لگاتار بنانے ہیں مجھے

تو کبھی دھوپ میں نکلے بھی تو چھاؤں میں رہے
راستے اور بھی چھتنار بنانے ہیں مجھے

میں رہوں یا نہ رہوں تیری کہانی تو رہے
اپنے جیسے کئی کردار بنانے ہیں مجھے