اپنے ہونے کا کوئی ساز نہیں دیتی ہے
اب تو تنہائی بھی آواز نہیں دیتی ہے
جانے یہ کون سی منزل ہے شناسائی کی
ذات مطلق کوئی اعجاز نہیں دیتی ہے
اپنی افتاد طبیعت کا گلا کیا ہو کہ جو
خواہشوں کو پر پرواز نہیں دیتی ہے
ساعت خوبی گزر جاتی ہے آتے جاتے
پر یہ تحریک تگ و تاز نہیں دیتی ہے
جانے کیوں اپنی انا دہر سے قربت کے لیے
کوئی پروانہ آغاز نہیں دیتی ہے
رات میرے لیے گنتی ہے طرازؔ اپنے نجوم
میرے ہونے کا مگر راز نہیں دیتی ہے
غزل
اپنے ہونے کا کوئی ساز نہیں دیتی ہے
راشد طراز