اپنے ہونے کا ہر اک لمحہ پتا دیتی ہوئی
یاد ہیں مجھ کو وہ دو آنکھیں صدا دیتی ہوئی
عمر بھر کی حسرتیں لادے تھکی ماندی حیات
جا رہی ہے جانے کس کس کو دعا دیتی ہوئی
دل کا ہر اک حکم سر آنکھوں پہ لیکن کیا کریں
یہ جو ہے اک عقل اپنا فیصلہ دیتی ہوئی
دیکھتے ہی دیکھتے اڑنے لگی بستی میں خاک
اک خبر آئی تھی شعلوں کو ہوا دیتی ہوئی
عمر بھر کی جستجو کا ہے یہی حاصل ضیاؔ
ایک دیوار تحیر آسرا دیتی ہوئی
غزل
اپنے ہونے کا ہر اک لمحہ پتا دیتی ہوئی
ضیا فاروقی