EN हिंदी
اپنے ہی ٹوٹے ہوئے خوابوں کو دل چنتا بھی ہے | شیح شیری
apne hi TuTe hue KHwabon ko dil chunta bhi hai

غزل

اپنے ہی ٹوٹے ہوئے خوابوں کو دل چنتا بھی ہے

سلطان صبروانی

;

اپنے ہی ٹوٹے ہوئے خوابوں کو دل چنتا بھی ہے
ربط یہ قائم رہے دھندلا بھی ہے گہرا بھی ہے

ایک رنگ و نور کی دنیا ہے میرے سامنے
سوچتا ہوں اس خرابے میں کوئی اپنا بھی ہے

پھر وہی وحشت ہے یارو پھر وہی ویرانیاں
مستقل اس گھر میں آ کے کیا کوئی ٹھہرا بھی ہے

مجھ میں ہیں معکوس بدلے موسموں کی صورتیں
آئینہ دل ہی نہیں ہے آئینہ چہرہ بھی ہے

میں اندھیروں کا مسافر ہوں مگر یہ علم ہے
رات کے زخموں کا مرہم صبح کا جھونکا بھی ہے

وقت نے تعمیر کے جذبوں کو کیا تصویر دی
ہے پس منظر گلستاں سامنے صحرا بھی ہے

جاگتے لمحوں کی آنکھیں کس لیے خیرہ ہوئیں
نصف شب میں صبرؔ کیا سورج کبھی نکلا بھی ہے