اپنے ہی ٹوٹے ہوئے خوابوں کو دل چنتا بھی ہے
ربط یہ قائم رہے دھندلا بھی ہے گہرا بھی ہے
ایک رنگ و نور کی دنیا ہے میرے سامنے
سوچتا ہوں اس خرابے میں کوئی اپنا بھی ہے
پھر وہی وحشت ہے یارو پھر وہی ویرانیاں
مستقل اس گھر میں آ کے کیا کوئی ٹھہرا بھی ہے
مجھ میں ہیں معکوس بدلے موسموں کی صورتیں
آئینہ دل ہی نہیں ہے آئینہ چہرہ بھی ہے
میں اندھیروں کا مسافر ہوں مگر یہ علم ہے
رات کے زخموں کا مرہم صبح کا جھونکا بھی ہے
وقت نے تعمیر کے جذبوں کو کیا تصویر دی
ہے پس منظر گلستاں سامنے صحرا بھی ہے
جاگتے لمحوں کی آنکھیں کس لیے خیرہ ہوئیں
نصف شب میں صبرؔ کیا سورج کبھی نکلا بھی ہے
غزل
اپنے ہی ٹوٹے ہوئے خوابوں کو دل چنتا بھی ہے
سلطان صبروانی