اپنے ہی بھائی کو ہمسایہ بناتے کیوں ہو
صحن کے بیچ میں دیوار لگاتے کیوں ہو
اک نہ اک دن تو انہیں ٹوٹ بکھرنا ہوگا
خواب پھر خواب ہیں خوابوں کو سجاتے کیوں ہو
کون سنتا ہے یہاں کون ہے سننے والا
یہ سمجھتے ہو تو آواز اٹھاتے کیوں ہو
خود کو بھولے ہوئے گزرے ہیں زمانے یارو
اب مجھے تم مرا احساس دلاتے کیوں ہو
اپنے چہروں پہ جو خود آپ ہی پتھر پھینکیں
ایسے لوگوں کو تم آئینہ دکھاتے کیوں ہو
اپنی تقدیر ہے طوفانوں سے لڑتے رہنا
اہل ساحل کی طرف ہاتھ بڑھاتے کیوں ہو
آج کے دور کا موسم ہے غبار آلودہ
آئنہ پر کوئی تحریر بچھاتے کیوں ہو
کچھ دلائل کوئی معنی نہیں رکھتے آزرؔ
کہنے والے کی ہر اک بات پہ جاتے کیوں ہو

غزل
اپنے ہی بھائی کو ہمسایہ بناتے کیوں ہو
مشتاق آذر فریدی