EN हिंदी
اپنے ہاتھوں کی لکیریں نہ مٹا رہنے دے | شیح شیری
apne hathon ki lakiren na miTa rahne de

غزل

اپنے ہاتھوں کی لکیریں نہ مٹا رہنے دے

مبارک شمیم

;

اپنے ہاتھوں کی لکیریں نہ مٹا رہنے دے
جو لکھا ہے وہی قسمت میں لکھا رہنے دے

سچ اگر پوچھ تو زندہ ہوں انہیں کی خاطر
تشنگی مجھ کو سرابوں میں گھرا رہنے دے

آہ اے عشرت رفتہ نکل آئے آنسو
میں نہ کہتا تھا کہ اتنا نہ ہنسا رہنے دے

اس کو دھندلا نہ سکے گا کبھی لمحوں کا غبار
میری ہستی کا ورق یونہی کھلا رہنے دے

شرط یہ ہے کہ رہے ساتھ وہ منزل منزل
ورنہ زحمت نہ کرے باد صبا رہنے دے

یوں بھی احساس الم شب میں سوا ہوتا ہے
اے شب ماہ مری حد میں نہ آ رہنے دے

زندگی میرے لیے درد کا صحرا ہے شمیمؔ
میرے ماضی مجھے اب یاد نہ آ رہنے دے