اپنے گھر میں مری تصویر سجانے والے
انگلیاں تجھ پہ اٹھائیں گے زمانے والے
جا تجھے بھی کہیں دیوار کا سایہ نہ ملے
غم کے صحرا میں مجھے چھوڑ کے جانے والے
ہم فقیروں کی بھی تھوڑی سی دعائیں لے جا
کام آئیں گی نظر پھیر کے جانے والے
شعلہ رو شعلہ بدن شعلہ سخن شعلہ مزاج
آ گئے گھر میں مرے آگ لگانے والے
وہ ہمارے ہی کسی دوست کا گھر تھا شاید
چھپ کے بیٹھے تھے جہاں تیر چلانے والے
اپنے اندر بھی کبھی جھانک کے دیکھا ہوتا
آئنہ سارے زمانے کو دکھانے والے
آتش رشک سے جلتے ہیں عدو جل جائیں
پھول راہیؔ پہ لٹائیں گے لٹانے والے

غزل
اپنے گھر میں مری تصویر سجانے والے
اصغر راہی