اپنے گھر کے در و دیوار کو اونچا نہ کرو
اتنا گہرا مری آواز سے پردا نہ کرو
جو نہ اک بار بھی چلتے ہوئے مڑ کے دیکھیں
ایسی مغرور تمناؤں کا پیچھا نہ کرو
ہو اگر ساتھ کسی شوخ کی خوشبوئے بدن
راہ چلتے ہوئے مہ پاروں کو دیکھا نہ کرو
کل نہ ہو یہ کہ مکینوں کو ترس جائے یہ دل
دل کے آسیب کا ہر ایک سے چرچا نہ کرو
عشق آثار زلیخاؤں کی اس بستی میں
صاحبو پاکئ داماں پہ بھروسہ نہ کرو
غزل
اپنے گھر کے در و دیوار کو اونچا نہ کرو
زبیر رضوی