EN हिंदी
اپنے غریب دل کی بات کرتے ہیں رائیگاں کہاں | شیح شیری
apne gharib dil ki baat karte hain raegan kahan

غزل

اپنے غریب دل کی بات کرتے ہیں رائیگاں کہاں

ارم لکھنوی

;

اپنے غریب دل کی بات کرتے ہیں رائیگاں کہاں
یہ بھی نہ ہم سمجھ سکے اپنا کوئی یہاں کہاں

ان کے لیے وہ آسمان میرا گزر وہاں کہاں
میرے لیے یہی زمین آئیں گے وہ یہاں کہاں

سامنا ان کا جب ہوا آنکھوں نے جو کہا کہا
دل میں ہزار اشتیاق ان میں مگر زباں کہاں

اف یہ مآل جستجو بعد کمال جستجو
پہنچے وہی جگہ کہنے لگی یہاں کہاں

حد نظر کا ہے فریب قرب زمین و آسماں
ورنہ مری زمین سے ملتا ہے آسماں کہاں

حسن کا پاسبان عشق عشق کا پاسبان دل
دل کا ہے پاسبان ہوش ہوش کا پاسباں کہاں

منزل عاشقی سے کم رکنے کی جا نہیں ارمؔ
یہ تو ابھی ہے رہگزر بیٹھ گئے یہاں کہاں