اپنے دل میں آگ لگانی پڑتی ہے
ایسے بھی اب رات بتانی پڑتی ہے
اس کی باتیں سن کر ایسے اٹھتا ہوں
جیسے اپنی لاش اٹھانی پڑتی ہے
وو خوابوں میں ہاتھ چھڑا کر جائے تو
نیندوں میں آواز لگانی پڑتی ہے
کیا خوشبو سے میں اس کی بچ پاؤں گا
رستہ میں جو رات کی رانی پڑتی ہے
اب جا کر کے بات سمجھ میں آئی ہے
لیکن اب کمزور جوانی پڑتی ہے
غزل
اپنے دل میں آگ لگانی پڑتی ہے
اشفاق رشید منصوری