اپنے دیدار کی حسرت میں تو مجھ کو سراپا دل کر دے
ہر قطرۂ دل کو قیس بنا ہر ذرے کو محمل کر دے
دنیائے حسن و عشق مری کرنا ہے تو یوں کامل کر دے
اپنے جلوے میری حیرت نظارے میں شامل کر دے
یاں طور و کلیم نہیں نہ سہی میں حاضر ہوں لے پھونک مجھے
پردے کو اٹھا دے مکھڑے سے برباد سکون دل کر دے
گر قلزم عشق ہے بے ساحل اے خضر تو بے ساحل ہی سہی
جس موج میں ڈوبے کشتئ دل اس موج کو تو ساحل کر دے
اے درد عطا کرنے والے تو درد مجھے اتنا دے دے
جو دونوں جہاں کی وسعت کو اک گوشۂ دامن دل کر دے
ہر سو سے غموں نے گھیرا ہے اب ہے تو سہارا تیرا ہے
مشکل آساں کرنے والے آسان مری مشکل کر دے
بیدمؔ اس یاد کے میں صدقے اس درد محبت کے قرباں
جو جینا بھی دشوار کرے اور مرنا بھی مشکل کر دے
غزل
اپنے دیدار کی حسرت میں تو مجھ کو سراپا دل کر دے
بیدم شاہ وارثی