EN हिंदी
اپنے در سے جو اٹھاتے ہیں ہمیں | شیح شیری
apne dar se jo uThate hain hamein

غزل

اپنے در سے جو اٹھاتے ہیں ہمیں

امداد امام اثرؔ

;

اپنے در سے جو اٹھاتے ہیں ہمیں
خاک میں آپ ملاتے ہیں ہمیں

ہے جو منظور جفا در پردہ
منہ وہ غیروں میں دکھاتے ہیں ہمیں

غیر کو پاس بٹھا رکھتے ہیں
جب کبھی آپ بلاتے ہیں ہمیں

گرمیاں غیر کو دکھلا دکھلا
بزم میں آپ جلاتے ہیں ہمیں

شب فرقت میں فلک کے تارے
داغ دل یاد دلاتے ہیں ہمیں

ان کے انداز سخن ہیں معلوم
غیر کو کہہ کے سناتے ہیں ہمیں

پھر کسی گل پہ ہوا دل مائل
داغ تازہ نظر آتے ہیں ہمیں

چھوڑ دیں آپ کی ہم راہی ہم
واہ کیا راہ بتاتے ہیں ہمیں

تو ہمیں راہ بتائے جس سے
غیر وہ راہ بتاتے ہیں ہمیں

عطر گل سے نہیں جب دل بھرتا
اپنا رومال سونگھاتے ہیں ہمیں

شب کو افسانۂ دل کہہ کے اثرؔ
آپ روتے ہیں رلاتے ہیں ہمیں