اپنے چہرے پر کئی چہرے لیے
ہم بڑے ہی پارسا بن کر جیے
راز الفت کا چھپانے کے لیے
ضبط گریہ بھی کیا لب بھی سیے
جن میں چلتی ہیں ہوائیں تیز تیز
ایسی راہوں میں جلائے ہیں دیے
جو بھی ہیں اس بزم میں مدہوش ہیں
اور یہ مدہوشیاں ہیں بن پیے
آپ نے چھوڑے ہیں جو نقش قدم
وہ ہمارے حق میں ہیں روشن دیے
غم کے طوفانوں کی زد پر بے خطر
پھر جمالیؔ نے جلائے ہیں دیے
غزل
اپنے چہرے پر کئی چہرے لیے
بدر جمالی