اپنے چہرے پر بھی چپ کی راکھ مل جائیں گے ہم
اب تری مانند سوچا ہے بدل جائیں گے ہم
آگ جو ہم نے جلائی ہے تحفظ کے لئے
اس کے شعلوں کی لپٹ میں گھر کے جل جائیں گے ہم
ختم ہے عہد زمستاں دھوپ میں حدت سی ہے
ایک انجانے سفر پر اب نکل جائیں گے ہم
زندگی اپنی اساسی یا قیاسی جو بھی ہو
خواب بن کر آئے مانند غزل جائیں گے ہم
مستقل اک روپ کب تک اس طرح دھارے پھریں
وقت کے سیال پیمانے میں ڈھل جائیں گے ہم
تو اگر بے منطقی پر دل کی ہنستا ہے تو کیا
دل جدھر لے جائے قسام ازل جائیں گے ہم
چاندنی میں سارے دکھ تحلیل کرنے کے لئے
گھر ہے اپنا آج یا شاہینؔ کل جائیں گے ہم
غزل
اپنے چہرے پر بھی چپ کی راکھ مل جائیں گے ہم
ولی عالم شاہین