اپنے انجام سے بے خبر زندگی
رات دن کر رہی ہے سفر زندگی
ان دہکتی چتاؤں کی آغوش میں
کس طرح ہو سکے گی بسر زندگی
آ کے جاتے ہوئے منظروں کی طرح
گھٹتی جاتی ہے شام و سحر زندگی
موت تیرا بہت ہم پہ احسان ہے
تجھ سے پہلی نہ تھی معتبر زندگی
بغض و نفرت کی بڑھتی ہوئی آگ میں
جل رہے ہیں امیدوں کے گھر زندگی
چھوڑ کر اس قفس کو کدھر جائیں گے
ہو گئی اب تو بے بال و پر زندگی
ہم بھی سیلانیؔ بھٹکا کیے عمر بھر
لے گئی جب ادھر سے ادھر زندگی

غزل
اپنے انجام سے بے خبر زندگی
سیلانی سیوتے