EN हिंदी
اپنے انجام سے بے خبر زندگی | شیح شیری
apne anjam se be-KHabar zindagi

غزل

اپنے انجام سے بے خبر زندگی

سیلانی سیوتے

;

اپنے انجام سے بے خبر زندگی
رات دن کر رہی ہے سفر زندگی

ان دہکتی چتاؤں کی آغوش میں
کس طرح ہو سکے گی بسر زندگی

آ کے جاتے ہوئے منظروں کی طرح
گھٹتی جاتی ہے شام و سحر زندگی

موت تیرا بہت ہم پہ احسان ہے
تجھ سے پہلی نہ تھی معتبر زندگی

بغض و نفرت کی بڑھتی ہوئی آگ میں
جل رہے ہیں امیدوں کے گھر زندگی

چھوڑ کر اس قفس کو کدھر جائیں گے
ہو گئی اب تو بے بال و پر زندگی

ہم بھی سیلانیؔ بھٹکا کیے عمر بھر
لے گئی جب ادھر سے ادھر زندگی