EN हिंदी
اپنے اندر اتر رہا ہوں میں | شیح شیری
apne andar utar raha hun main

غزل

اپنے اندر اتر رہا ہوں میں

وقار واثقی

;

اپنے اندر اتر رہا ہوں میں
دھیرے دھیرے سدھر رہا ہوں میں

نور و ظلمت میں امتیاز نہیں
اس کنوئیں میں اتر رہا ہوں میں

جس کو دیکھو چرا رہا ہے نگاہ
کس گلی سے گزر رہا ہوں میں

خود کو اک دن سمیٹنا بھی ہے
آج کل تو بکھر رہا ہوں میں

چھوڑا اندیشہ ہائے دور دراز
جی رہا ہوں کہ مر رہا ہوں میں

جانتا ہوں میں ہر قدم اس کا
مدتوں ہم سفر رہا ہوں میں

سارے چہرے ہیں یہ تو ان جانے
میہماں کس کے گھر رہا ہوں میں