اپنے اندر اتر رہا ہوں میں
دھیرے دھیرے سدھر رہا ہوں میں
نور و ظلمت میں امتیاز نہیں
اس کنوئیں میں اتر رہا ہوں میں
جس کو دیکھو چرا رہا ہے نگاہ
کس گلی سے گزر رہا ہوں میں
خود کو اک دن سمیٹنا بھی ہے
آج کل تو بکھر رہا ہوں میں
چھوڑا اندیشہ ہائے دور دراز
جی رہا ہوں کہ مر رہا ہوں میں
جانتا ہوں میں ہر قدم اس کا
مدتوں ہم سفر رہا ہوں میں
سارے چہرے ہیں یہ تو ان جانے
میہماں کس کے گھر رہا ہوں میں

غزل
اپنے اندر اتر رہا ہوں میں
وقار واثقی