اپنے انداز کا اکیلا تھا
اس لئے میں بڑا اکیلا تھا
پیار تو جنم کا اکیلا تھا
کیا مرا تجربہ اکیلا تھا
ساتھ تیرا نہ کچھ بدل پایا
میرا ہی راستہ اکیلا تھا
بخشش بے حساب کے آگے
میرا دست دعا اکیلا تھا
تیری سمجھوتے باز دنیا میں
کون میرے سوا اکیلا تھا
جو بھی ملتا گلے لگا لیتا
کس قدر آئنا اکیلا تھا
غزل
اپنے انداز کا اکیلا تھا
وسیم بریلوی