اپنے عہد وفا سے رو گردانی کرتا رہتا ہے
میری صبحوں شاموں کی نگرانی کرتا رہتا ہے
کیا کہیے کس مشکل میں باقی ہے محبت کا میثاق
جس پر آئے دن وہ خود نگرانی کرتا رہتا ہے
اس کے اپنے گھر کا صفایا دن کو کیسے ہو پایا
وہ جو شب بھر شہر کی خود نگرانی کرتا رہتا ہے
دل نے اس کو بھلا دینے کا عزم تو کتنی بار کیا
دل پاگل ہے خود ہی نافرمانی کرتا رہتا ہے
میری نا سمجھی کے باعث اس کے مسائل الجھ گئے
میری خاطر جو پیدا آسانی کرتا رہتا ہے
یوں لگتا ہے اس کے دن بھی پورے ہونے والے ہیں
حد بساط سے بڑھ کر وہ من مانی کرتا رہتا ہے
اس کی جھوٹی تردیدوں کو سن کر چپ ہو جاتا ہوں
میرے خلاف جو دن بھر غلط بیانی کرتا رہتا ہے
جس کو تو نے اپنے ہاتھوں اونچا کیا ہے جان سلیمؔ
میرے خلاف وہی تو زہر افشانی کرتا رہتا ہے
غزل
اپنے عہد وفا سے رو گردانی کرتا رہتا ہے
صفدر سلیم سیال