اپنے آنسو ہیں تمہارے نہیں رو سکتا میں
آج آنکھوں سے ستارے نہیں رو سکتا میں
ایک تکلیف کا دریا ہے بدن میں لیکن
بیٹھ کر اس کے کنارے نہیں رو سکتا میں
میں ہوں مجذوب مرے دل کی حقیقت ہے الگ
لاکھ ہوتے ہوں خسارے نہیں رو سکتا میں
جسم ہے روح کی حدت میں پگھلنے والا
ہوں شرابور شرارے نہیں رو سکتا میں
میں تماشا ہوں تماشائی ہیں چاروں جانب
شرم ہے شرم کے مارے نہیں رو سکتا میں
بدگماں ہونے لگا ہے یہ تیقن کا جہاں
مجھ کو افسوس ہے پیارے نہیں رو سکتا میں
ذرے ذرے میں قیامت کا سماں ہے ساحلؔ
ایک ہی دل کے سہارے نہیں رو سکتا میں
غزل
اپنے آنسو ہیں تمہارے نہیں رو سکتا میں
خالد ملک ساحلؔ