اپنا سارا بوجھ زمیں پر پھینک دیا
تجھ کو خط لکھا اور لکھ کر پھینک دیا
خود کو ساکن دیکھا ٹھہرے پانی میں
جانے کیا کچھ سوچ کے پتھر پھینک دیا
دیواریں کیوں خالی خالی لگتی ہیں
کس نے سب کچھ گھر سے باہر پھینک دیا
میں تو اپنا جسم سکھانے نکلا تھا
بارش نے پھر مجھ پہ سمندر پھینک دیا
وہ کیسا تھا اس کو کہاں پر دیکھا تھا
اپنی آنکھوں نے ہر منظر پھینک دیا
غزل
اپنا سارا بوجھ زمیں پر پھینک دیا
افتخار نسیم